بیٹھے بٹھائے آج پھر کس کا خیال آ گیا
چہرے کا رنگ اڑ گیا رنگ ملال آ گیا
الجھن میں پڑ گیا ہوں میں دل کا کروں تو کیا کروں
شیشہ نہیں یہ کام کا اس میں تو بال آ گیا
پورا نہ کر سکوں گا اب تجھ سے کبھی مکالمہ
آنکھیں تھیں محو گفتگو دل کا سوال آ گیا
کرنی ہے ترک جس جگہ تیری تلاش و آرزو
صحرا میں اب مقام وہ میرے غزال آ گیا
روئی کی طرح شہر میں اڑنے لگی ہے یہ خبر
اس کو ہی بس پتہ نہیں اس کا زوال آ گیا
میں نے تو اپنا آئینہ رکھا تھا اس کے روبرو
اتنی سی ایک بات تھی اس کو جلال آ گیا
غزل
بیٹھے بٹھائے آج پھر کس کا خیال آ گیا
عبید صدیقی