EN हिंदी
بیٹھے بٹھائے آج پھر کس کا خیال آ گیا | شیح شیری
baiThe biThae aaj phir kis ka KHayal aa gaya

غزل

بیٹھے بٹھائے آج پھر کس کا خیال آ گیا

عبید صدیقی

;

بیٹھے بٹھائے آج پھر کس کا خیال آ گیا
چہرے کا رنگ اڑ گیا رنگ ملال آ گیا

الجھن میں پڑ گیا ہوں میں دل کا کروں تو کیا کروں
شیشہ نہیں یہ کام کا اس میں تو بال آ گیا

پورا نہ کر سکوں گا اب تجھ سے کبھی مکالمہ
آنکھیں تھیں محو گفتگو دل کا سوال آ گیا

کرنی ہے ترک جس جگہ تیری تلاش و آرزو
صحرا میں اب مقام وہ میرے غزال آ گیا

روئی کی طرح شہر میں اڑنے لگی ہے یہ خبر
اس کو ہی بس پتہ نہیں اس کا زوال آ گیا

میں نے تو اپنا آئینہ رکھا تھا اس کے روبرو
اتنی سی ایک بات تھی اس کو جلال آ گیا