بیٹھے بیٹھے کوئی خیال آیا
زندہ رہنے کا پھر سوال آیا
کون دریاؤں کا حساب رکھے
نیکیاں نیکیوں میں ڈال آیا
زندگی کس طرح گزارتے ہیں
زندگی بھر نہ یہ کمال آیا
جھوٹ بولا ہے کوئی آئینہ
ورنہ پتھر میں کیسے بال آیا
وہ جو دو گز زمیں تھی میرے نام
آسماں کی طرف اچھال آیا
کیوں یہ سیلاب سا ہے آنکھوں میں
مسکرائے تھے ہم خیال آیا
غزل
بیٹھے بیٹھے کوئی خیال آیا
راحتؔ اندوری