بیٹھا تھا تن کو ڈھانک کے جو گرم شال سے
مشکل میں پڑ گیا وہ ستاروں کی چال سے
خاموشیوں کی راہ پہ ہو کر کے گامزن
رکھنا کبھی نہ سوچ کا رشتہ ملال سے
امید ایسی ان سے متانت کی تھی نہیں
بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے
دم خم تو کچھ نہیں تھا حقیقت کے نام پر
گھبرا گیا جہان ہماری مجال سے
کچھ مصلحت کے نام پہ چپ چاپ ہم رہے
واقف تھے ورنہ وقت کے پوشیدہ حال سے
چادر پہ آسمان کی بکھری تھی چاندنی
آراستہ زمین تھی اس کے جمال سے
تم شہر جا رہے ہو تو جاؤ مگر وہاں
ارماں ملیں گے دیکھنا بے حد نڈھال سے
افسردہ فکر تھی جو قدامت کے خول میں
شاداب ہو گئی ہے وہ روشن خیال سے
اک پتے کی بساط تمہاری ہے ساہنیؔ
مٹی میں جا ملوگے جدا ہو کے ڈال سے

غزل
بیٹھا تھا تن کو ڈھانک کے جو گرم شال سے
جعفر ساہنی