بیٹھا ہے سوگوار ستم گر کے شہر میں
کس کو پکارے آئینہ پتھر کے شہر میں
بے جا نہیں فضاؤں کا حیرت میں ڈوبنا
اتنا سکوت اور سخن ور کے شہر میں
اس دور میں اسی کو ہنر مند مانیے
جینا نہیں پڑا جسے مر مر کے شہر میں
منزل قریب آئی تو رستہ بھلا گیا
پھرتے ہیں خاک چھانتے رہبر کے شہر میں
سورج نظر بچا کے تو گزرا نہ تھا مگر
اتریں نہیں شعاعیں مقدر کے شہر میں
انساں کہوں انہیں کہ فرشتوں کا نام دوں
جو لوگ درد مند ہیں بے گھر کے شہر میں
شاید نکل ہی آئے کوئی چارہ گر فگارؔ
اک بار اور دیکھ صدا کر کے شہر میں
غزل
بیٹھا ہے سوگوار ستم گر کے شہر میں
امر سنگھ فگار