بیٹھ کر پاس نہ ارمان بھرا دل دیکھا
اک نظر دور سے ہی اس نے بہ مشکل دیکھا
آئنہ دیکھ کے خود ہو گیا بسمل دیکھا
ہم نے تو عکس کو قاتل کے بھی قاتل دیکھا
ہجر میں جینا تو بے شک ہے نہایت دشوار
عشق میں اور کوئی کام نہ مشکل دیکھا
جان مانگی تھی کہا ہم نے کہ تم پر ہے نثار
اس پہ کہتے ہو کہ بس جا بھی ترا دل دیکھا
میں سمجھتا ہوں اسے اپنی محبت کی کشش
تو نے منہ پھیر کے بھی مجھ کو جو قاتل دیکھا
آپ کی یاد سے میں تو کبھی غافل نہ رہا
آپ کہتے ہیں تجھے خواب میں غافل دیکھا
بستر گل پہ جسے دیکھا تھا سوتے کل تک
آج اس نور کے پتلے کو تہ گل دیکھا
شان اللہ کی گلشن میں نظر آئی ہمیں
کبھی غنچے پہ نظر ڈالی کبھی دل دیکھا
عمر بھر خاک اڑاتا رہا صحرا کی مگر
عمر بھر قیس نے لیلیٰ کا نہ محمل دیکھا
مل گیا خاک میں خود ان کی حفاظت کے لئے
شوق و ارماں کا محافظ تجھے اے دل دیکھا
بھر دیا گوہر نایاب سے اشکوں نے مرے
خالی پھیلا ہوا جب دامن ساحل دیکھا
ہم سنانے لگے قصہ اسے اپنا شنکرؔ
غیر کے ذکر سے جس دم اسے غافل دیکھا
غزل
بیٹھ کر پاس نہ ارمان بھرا دل دیکھا
شنکر لال شنکر