بہت اداس ہے دل جانے ماجرا کیا ہے
مرے نصیب میں غم کے سوا دھرا کیا ہے
میں جن کے واسطے دنیا ہی چھوڑ آیا تھا
وہ پوچھتے ہیں کہ آخر تجھے ہوا کیا ہے
نبھا رہا ہوں میں دنیا کے راہ و رسم یہاں
وگرنہ جسم کے صحرا میں اب بچا کیا ہے
یہاں تو عید کا موسم بھی اب نہیں آتا
نہ جانے گردش دوراں کو ہو گیا کیا ہے
ہر ایک رات مری زندگی کا ماتم ہے
ہر ایک شام یہاں موت کے سوا کیا ہے
ہمارا فرض تو جلنا ہے صرف محفل میں
بھلا چراغ کا خوشیوں سے واسطہ کیا ہے
غزل
بہت اداس ہے دل جانے ماجرا کیا ہے
ؔسراج عالم زخمی