بہت سنا تھا کہ کھلتا ہے پر نہیں کھلتا
خدا کے واسطے بندے کا گھر نہیں کھلتا
وہ ایک شعر جو کھلتا ہے ساری محفل پہ
وہ جس پہ کھلنا ہے اس پہ مگر نہیں کھلتا
ہمارے قد کے مطابق جسے بنایا تھا
وہی وہ در ہے جو بالشت بھر نہیں کھلتا
بنے ہوئے ہیں عجایب گھروں کی زینت ہم
پر اپنے واسطے اپنا ہی در نہیں کھلتا
تمہیں پہنچنا ہے اقبالؔ میرؔ غالبؔ تک
مگر وہ راستہ شاید ادھر نہیں کھلتا
کرے کی منتیں کرتے ہیں ایک مدت سے
مگر نصیب میں اپنے سفر نہیں کھلتا
سوال دستکیں دے کہ ہوئے فنا فانیؔ
جہاں جواب ہے بس وہ ہی در نہیں ملتا
غزل
بہت سنا تھا کہ کھلتا ہے پر نہیں کھلتا
فانی جودھپوری