بہت سی آنکھیں لگیں ہیں اور ایک خواب تیار ہو رہا ہے
حقیقتوں سے مقابلے کا نصاب تیار ہو رہا ہے
تمام دنیا کے زخم اپنے بیاں قلم بند کر رہے ہیں
مری سوانح حیات کا ایک باب تیار ہو رہا ہے
بہت سے چاند اور بہت سے پھول ایک تجربے میں لگے ہیں کب سے
سنا ہے تم نے کہیں تمہارا جواب تیار ہو رہا ہے
چمن کے پھولوں میں خون دینے کی ایک تحریک چل رہی ہے
اور اس لہو سے خزاں کی خاطر خضاب تیار ہو رہا ہے
پرانی بستی کی کھڑکیوں سے میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
نیا جو وہ شہر ہے بہت ہی خراب تیار ہو رہا ہے
کھلے ہوئے ہیں فنا کے دفتر میں سب عناصر کے گوشوارے
کہ آسمانوں میں اب زمیں کا حساب تیار ہو رہا ہے
میں جب کبھی اس سے پوچھتا ہوں کہ یار مرہم کہاں ہے میرا
تو وقت کہتا ہے مسکرا کر جناب تیار ہو رہا ہے
بدن کو جانا ہے پہلی بار آج روح کی محفل طرب میں
تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی نواب تیار ہو رہا ہے
اس امتحاں کے سوال آتے نہیں نصابوں سے مکتبوں کے
عجیب عاشق ہے یہ جو پڑھ کر کتاب تیار ہو رہا ہے
جنوں نے برپا کیا ہے صحرا میں شہر کی تعزیت کا جلسہ
تو فرحتؔ احساس بھی بہ چشم پر آب تیار ہو رہا ہے
غزل
بہت سی آنکھیں لگیں ہیں اور ایک خواب تیار ہو رہا ہے
فرحت احساس