EN हिंदी
بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں | شیح شیری
bahut se zamin mein dabae gae hain

غزل

بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں

پروین ام مشتاق

;

بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں
بہت ان کے عاشق جلائے گئے ہیں

ہمیشہ سے عاشق ستائے گئے ہیں
ہمیں کیا نئے یاں جلائے گئے ہیں

اندھیرا نہ ہونے دیا وصل کی شب
وہ شمعوں پہ شمعیں جلائے گئے ہیں

نہیں بے سبب ان کو مجھ سے رکاوٹ
بہت ہی سکھائے پڑھائے گئے ہیں

نہیں وصل کی ان سے فرمائش آساں
بہت منہ بگاڑے بنائے گئے ہیں

اداؤں کے ناموں کے غمزوں کے مجھ پر
بہت چور پہرے بٹھائے گئے ہیں

نگاہوں کی چھریاں اداؤں کے خنجر
بہت میرے دل پر لگائے گئے ہیں

لڑایا ہے شہ دے کے لوگوں نے ہم کو
بہت روز نقشے جمائے گئے ہیں

میں نالاں نہ تھا تیرے جور و جفا سے
زمانہ کے دل کیوں دکھائے گئے ہیں

دل و دیدہ دو گھر ہیں تشریف لائیں
سنوارے گئے ہیں سجائے گئے ہیں

یہ دنیا ہے اس میں ہمیشہ سے انساں
بگاڑے گئے ہیں بنائے گئے ہیں

بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
کہ مٹی سے ہم تم بنائے گئے ہیں

زمیں سے ہی آئے زمیں ہی میں جانا
اسی سے بگاڑے بنائے گئے ہیں

ہمیں پر نہیں ظلم دنیا میں پرویںؔ
بہت لوگ یاں آزمائے گئے ہیں