بہت سے راستوں میں تو نے جو رستہ چنا تھا
فرشتے آج تک حیرت میں ہیں کیسا چنا تھا
بہت سے شہر رہنے کے لیے حاضر تھے لیکن
ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے صحرا چنا تھا
جو پیچھے آ رہے تھے ان سے تو غافل نہیں تھا
کہ تو نے راستے کا ایک اک کانٹا چنا تھا
جہاں میں کون تھا دوش نبی جس کا تھا مرکب
اسی خاطر برہنہ پائی نے تجھ سا چنا تھا
زمانہ جانتا ہے کون تھا جو پار اترا
کہ تو نے پیاس اور دربار نے دریا چنا تھا
غزل
بہت سے راستوں میں تو نے جو رستہ چنا تھا
محمد اظہار الحق