بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا
جو بچ رہے تھے انہیں مے پلا کے مار دیا
یہ کیا ادا ہے کہ جب ان کی برہمی سے ہم
نہ مر سکے تو ہمیں مسکرا کے مار دیا
نہ جاتے آپ تو آغوش کیوں تہی ہوتی
گئے تو آپ نے پہلو سے جا کے مار دیا
مجھے گلہ تو نہیں آپ کے تغافل سے
مگر حضور نے ہمت بڑھا کے مار دیا
نہ آپ آس بندھاتے نہ یہ ستم ہوتا
ہمیں تو آپ نے امرت پلا کے مار دیا
کسی نے حسن تغافل سے جاں طلب کر لی
کسی نے لطف کے دریا بہا کے مار دیا
جسے بھی میں نے زیادہ تپاک سے دیکھا
اسی حسین نے پتھر اٹھا کے مار دیا
وہ لوگ مانگیں گے اب زیست کس کے آنچل سے؟
جنہیں حضور نے دامن چھڑا کے مار دیا
چلے تو خندہ مزاجی سے جا رہے تھے ہم
کسی حسین نے رستے میں آ کے مار دیا
رہ حیات میں کچھ ایسے پیچ و خم تو نہ تھے
کسی حسین نے رستے میں آ کے مار دیا
کرم کی صورت اول تو جاں گداز نہ تھی
کرم کا دوسرا پہلو دکھا کے مار دیا
عجیب رس بھرا رہزن تھا جس نے لوگوں کو
طرح طرح کی ادائیں دکھا کے مار دیا
عجیب خلق سے اک اجنبی مسافر نے
ہمیں خلاف توقع بلا کے مار دیا
عدمؔ بڑے ادب آداب سے حسینوں نے
ہمیں ستم کا نشانہ بنا کے مار دیا
تعینات کی حد تک تو جی رہا تھا عدمؔ
تعینات کے پردے اٹھا کے مار دیا
غزل
بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا
عبد الحمید عدم