بہت سے درد تھے پر خود کو جوڑ کر رکھا
وہ میں کہ آتش و آہن میں جس نے سر رکھا
میں وہ ہوں جس نے تعاقب میں اپنے موت رکھی
اور اپنے سر کو سدا اس کی مار پر رکھا
نشاط و فتح مری دسترس میں تھے لیکن
کتاب عمر میں دکھ درد بیشتر رکھا
ملے ہوئے تھے مجھے چاہتوں کے در کتنے
مگر میں وہ کہ ہواؤں پہ مستقر رکھا
بہت سے لوگ مرے واسطے تھے دست کشا
مگر نظر میں ترا ہی دیار و در رکھا
کبھی ہوئی ہی نہیں مجھ کو بے گھری محسوس
خود اپنے پاؤں پہ جب سے ہے اپنا گھر رکھا
گواہ ہیں مرے مصرعوں کے بست و در کاشفؔ
چنا جو حرف اسے کر کے بارور رکھا
غزل
بہت سے درد تھے پر خود کو جوڑ کر رکھا
سید کاشف رضا