بہت قریب ہے پت جھڑ کی رت پلک نہ اٹھا
زمیں سے عکس اٹھا دھوپ کی چمک نہ اٹھا
غلاف سنگ میں لپٹا ہوا ہے شہر کا شہر
چلی ہوا تو زمیں سے غبار تک نہ اٹھا
قدم قدم پہ یہ ڈر تھا کہ گھات میں ہے کوئی
یہاں تو پائے تفکر میں تھی جھجک نہ اٹھا
پھر اپنا اپنا کفن لے کے چل دیئے سب لوگ
کسی سے بار غم مرگ مشترک نہ اٹھا
میں چوب غم تھا کہ پہروں سلگ سلگ کے جلا
کبھی جو شعلہ اٹھا بھی تو یک بیک نہ اٹھا
شگاف سر کو وجود ہوائے شور بہت
یہ شہر سنگ ہے یاں تہمت نمک نہ اٹھا
بہت زمیں سے اٹھایا اٹھی نہ پرچھائیں
گرا تھا عکس کچھ ایسا کہ آج تک نہ اٹھا
غزل
بہت قریب ہے پت جھڑ کی رت پلک نہ اٹھا
نشتر خانقاہی