بہت مشکل ہے ترک آرزو ربط آشنا ہو کر
گزر جا وادیٔ پر خار سے باد صبا ہو کر
لگا دو گے تمنا کے سفینے کو کنارے سے
معاذ اللہ دعوی خدائی نا خدا ہو کر
ہر اک ہو سلسلہ رنگیں گناہوں کے سلاسل کا
نہیں آسان دنیا سے گزرنا پارسا ہو کر
مری پنہائی علم و خبر کی انتہا یہ ہے
کہ اک قطرے سے ناواقف ہوں دریا آشنا ہو کر
کہاں تاب جدائی اب تو یہ محسوس ہوتا ہے
کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں گا تم سے جدا ہو کر
ترا در چھوڑ دوں لیکن ترے در کے سوا ساقی
کہاں جاؤں کدھر جاؤں زمانے سے خفا ہو کر
جو شکوہ ان سے کرنا تھا وہ ان کے روبرو درشنؔ
زباں تک آتے آتے رہ گیا حرف دعا ہو کر
غزل
بہت مشکل ہے ترک آرزو ربط آشنا ہو کر
درشن سنگھ