بہت لمبا سفر تپتی سلگتی خواہشوں کا تھا
مگر سایا ہمارے سر پہ گزری ساعتوں کا تھا
سروں پہ ہاتھ اپنے گھر کی بوسیدہ چھتوں کا تھا
مگر محفوظ سا منظر ہمارے آنگنوں کا تھا
کسی بھی سیدھے رستے کا سفر ملتا اسے کیوں کر
کہ وہ مسدود خود اپنے بنائے دائروں کا تھا
کبھی ہنستے ہوئے آنسو کبھی روتی ہوئی خوشیاں
کرشمہ جو بھی تھا سارا ہماری ہی حسوں کا تھا
خود اپنی کاوشوں سے ہم نے اپنی قسمتیں لکھیں
مگر کچھ ہاتھ ان میں بھی ہمارے دشمنوں کا تھا
نئے رشتے مقدس خواب سے آواز دیتے تھے
مگر آسیب سا دل پر گزشتہ رابطوں کا تھا
کسے ملتی نجات آزادؔ ہستی کے مسائل سے
کہ ہر کوئی مقید آب و گل کے سلسلوں کا تھا
غزل
بہت لمبا سفر تپتی سلگتی خواہشوں کا تھا
آزاد گلاٹی