EN हिंदी
بہت جمود تھا بے حوصلوں میں کیا کرتا | شیح شیری
bahut jumud tha be-hauslon mein kya karta

غزل

بہت جمود تھا بے حوصلوں میں کیا کرتا

فضا ابن فیضی

;

بہت جمود تھا بے حوصلوں میں کیا کرتا
نہ لگتی آگ تو میں جنگلوں میں کیا کرتا

اک امتحان وفا ہے یہ عمر بھر کا عذاب
کھڑا نہ رہتا اگر زلزلوں میں کیا کرتا

ہو چوب گیلی تو آخر جلائے کون اس کو
میں تجھ کو یاد بجھے ولولوں میں کیا کرتا

مری تمام حرارت زمیں کا ورثہ ہے
یہ آفتاب ترے بادلوں میں کیا کرتا

اب اس قدر بھی طرفدار میں نہیں اس کا
حمایت اس کی غلط فیصلوں میں کیا کرتا

یہ لوگ وہ ہیں جو بے جرم سنگسار ہوئے
حریف رہ کے ترے منچلوں میں کیا کرتا

میں اس کے چہرے کی رنگت نہیں جو اڑ نہ سکوں
سمیٹ کر وہ مجھے آنچلوں میں کیا کرتا

ادب سے رابطہ دانش کا جانتا ہی نہیں
الجھ کے وہ بھی مرے مسئلوں میں کیا کرتا

نہ راس آئی کبھی مجھ کو بزم کم نظراں
فضاؔ بھی بیٹھ کے ان پاگلوں میں کیا کرتا