EN हिंदी
بہت جمود ہے طاری کوئی خیال ذرا | شیح شیری
bahut jumud hai tari koi KHayal zara

غزل

بہت جمود ہے طاری کوئی خیال ذرا

ضیا ضمیر

;

بہت جمود ہے طاری کوئی خیال ذرا
نیا سا لفظ مری خاک پر اچھال ذرا

وہ تو ہی ہے کہ میں بکھرا ہوں سامنے جس کے
تو کم نصیب نہیں ہے مجھے سنبھال ذرا

بچھڑتے وقت یہ خواہش کہاں تھی ناجائز
اسے بھی ہوتا ہماری طرح ملال ذرا

نہیں جو مانتا خود کو کہ بے مثال ہے تو
تو اپنے جیسی دکھا دے کوئی مثال ذرا

ہنسی میں ٹال دے پھر سے ہماری ہر خواہش
پھر ایک بار تھپک دے ہمارا گال ذرا

میں خود کو راکھ نہ کر دوں یہ ڈر ستاتا ہے
حصار جسم سے باہر مجھے نکال ذرا