بہت ہیں روز ثواب و گناہ دیکھنے کو
کہ ہم ہیں زندگی بے پناہ دیکھنے کو
بنے گی اب نظر انکار سو رکے ہیں سبھی
خود اپنی آنکھ سے اپنی نگاہ دیکھنے کو
مری نوا کو جو پاکیزگی عطا کر دے
ترس رہا ہوں وہ معصوم چاہ دیکھنے کو
میں سنگ راہ نہیں دل کے اس دوراہے پر
کھڑا ہوا ہوں فقط اپنی راہ دیکھنے کو
ملا دیا ہمیں اپنوں سے شکریہ اے وقت
یہی ملے تھے ہمیں یوں تباہ دیکھنے کو
تنک مزاج ہیں ہم یوں نہ روز روز ملو
بہت ہے آؤ اگر گاہ گاہ دیکھنے کو
جو میرے بارے میں مجھ سے بھی معتبر ہے کوئی
میں جی رہا ہوں ترا وہ گواہ دیکھنے کو
سن اے ہمارے سیاہ و سفید کے مالک
ہم آئے ہیں وہ سفید و سیاہ دیکھنے کو
تم آنکھ تک نہیں ملتے مچا ہو جب کہرام
تم آنکھ کھولتے ہو صرف واہ دیکھنے کو
وہ چپ تو یوں ہے کہ آگاہ جن کو کرنا تھا
جیے نہ لمحۂ یک انتباہ دیکھنے کو
یہ کس کی آہ لگی گھر نہیں کوئی ملتا
ہر اک مکان ہے خود سب کی راہ دیکھنے کو
کھلا کہ دیدۂ عبرت نگاہ کوئی نہ تھا
اٹھی تھی یوں تو ہر اک کی نگاہ دیکھنے کو
جو سب کی جان کا جنجال یہ نباہ ہے تلخؔ
میں سب کے ساتھ ہوں بس وہ نباہ دیکھنے کو
غزل
بہت ہیں روز ثواب و گناہ دیکھنے کو
منموہن تلخ