بہت گھٹن ہے بہت اضطراب ہے مولا
ہمارے سر پہ یہ کیسا عذاب ہے مولا
سنا تھا میں نے یہی دن ہیں پھول کھلنے کے
مرے لیے تو یہ موسم خراب ہے مولا
کوئی بتائے ہماری سمجھ سے باہر ہے
کسے گناہ کہیں کیا ثواب ہے مولا
ازل سے تیری زمیں پر کھڑے ہیں تیرے غلام
سروں پہ ان کے وہی آفتاب ہے مولا
گناہ جتنے بھی میرے ہیں سب شمار میں ہیں
ترا کرم تو مگر بے حساب ہے مولا
کچھ اور ذلت و رسوائیاں مقدر ہوں
شمیمؔ ویسے بھی خانہ خراب ہے مولا
غزل
بہت گھٹن ہے بہت اضطراب ہے مولا
شمیم فاروقی