EN हिंदी
بہت فساد چھپا تھا لہو کی گردش میں | شیح شیری
bahut fasad chhupa tha lahu ki gardish mein

غزل

بہت فساد چھپا تھا لہو کی گردش میں

خلیل تنویر

;

بہت فساد چھپا تھا لہو کی گردش میں
بکھر کے خاک ہوئے اک ذرا سی لغزش میں

پرند شاخ پہ تنہا اداس بیٹھا ہے
اڑان بھول گیا مدتوں کی بندش میں

وہ ہاتھ کیا ہوئے تعمیر رائیگاں نکلی
مکان گر گئے موسم کی پہلی بارش میں

جو قتل و خون کی آندھی چلی تو تھمتی کیا
سبھی شریک تھے بستی کے لوگ سازش میں

کتاب کھولی تو لفظوں کے ساتھ بہنے لگے
عجب طلسم تھا اس شخص کی نگارش میں