بہت دنوں سے کسی کے گلو کا پیاسا ہے
بچو کہ خنجر قاتل لہو کا پیاسا ہے
شباب اپنا چھپا لے تو میرے دامن میں
ہر ایک شخص تری آبرو کا پیاسا ہے
جواں ہوا ہے مری شفقتوں کے سائے میں
وہ شخص آج جو میرے لہو کا پیاسا ہے
وہ عام چہروں کا مشتاق ہو نہیں سکتا
جو ذوق دید کسی خوبرو کا پیاسا ہے
ابھی بھی گونج رہی ہے فضا میں تیری صدا
ابھی بھی ذہن تری گفتگو کا پیاسا ہے
غزل
بہت دنوں سے کسی کے گلو کا پیاسا ہے
میکش اجمیری