بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں
میں اپنے گھر میں کھڑا گھر تلاش کرتا ہوں
پلک پہ قطرۂ شبنم اٹھائے صدیوں سے
ترے کرم کا سمندر تلاش کرتا ہوں
نظر میں جیت کی تصدیق کا سوال لیے
گلی گلی میں سکندر تلاش کرتا ہوں
بدن بدن سے خلوص و وفا کی خوشبوئیں
میں سونگھ کر نہیں چھوکر تلاش کرتا ہوں
لبوں کی پیاس بجھانے کے واسطے ساقی
کسی بزرگ کا ساغر تلاش کرتا ہوں
جواہرات کے اک ڈھیر پر کھڑا ہو کر
نئی پسند کا پتھر تلاش کرتا ہوں
تو آندھیوں کے تشدد کی بات کرتا ہے
میں اپنے ٹوٹے ہوئے پر تلاش کرتا ہوں
غزل
بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں
کنول ضیائی