بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے
چمن مانگا تھا پر اس نے بمشکل اک کلی دی ہے
مرے خلوت کدے کے رات دن یوں ہی نہیں سنورے
کسی نے دھوپ بخشی ہے کسی نے چاندنی دی ہے
نظر کو سبز میدانوں نے کیا کیا وسعتیں بخشیں
پگھلتے آبشاروں نے ہمیں دریا دلی دی ہے
محبت ناروا تقسیم کی قائل نہیں پھر بھی
مری آنکھوں کو آنسو تیرے ہونٹوں کو ہنسی دی ہے
مری آوارگی بھی اک کرشمہ ہے زمانے میں
ہر اک درویش نے مجھ کو دعائے خیر ہی دی ہے
کہاں ممکن تھا کوئی کام ہم جیسے دوانوں سے
تمہیں نے گیت لکھوائے تمہیں نے شاعری دی ہے
غزل
بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے
جاں نثاراختر