بہت دھوکا کیا خود کو مگر کیا کر لیا میں نے
تماشا مجھ کو کرنا تھا تماشا کر لیا میں نے
یہاں بھی اب نئی آبادیوں کا شور سنتا ہوں
یہاں سے بھی نکلنے کا ارادہ کر لیا میں نے
سفر میں دھوپ کی شدت کہاں تک جھیلتا آخر
تری یادوں کو اوڑھا اور سایہ کر لیا میں نے
کوئی اچھا نہیں سب لوگ اک جیسے ہیں بستی میں
نتیجہ یہ ہوا خود کو اکیلا کر لیا میں نے
کوئی موسم ہو کیسی ہی فضا ہو غم نہیں ہوتا
زمانے والا ہر اک رنگ پیدا کر لیا میں نے
یہ دنیا اپنے ڈھب کی تھی نہ دنیا والے اچھے تھے
مگر کیا کیجیئے پھر بھی گزارہ کر لیا میں نے
غزل
بہت دھوکا کیا خود کو مگر کیا کر لیا میں نے
فاروق شفق