بہت دعوے کیے ہیں آگہی نے
نہیں سمجھا محبت کو کسی نے
جبیں پر خاک کے ذرے نہیں ہیں
ستارے چن دیے ہیں بندگی نے
شکایت ہے انہیں بھی زندگی سے
جنہیں سب کچھ دیا ہے زندگی نے
صبا سے پوچھیے کیا گل کھلائے
چمن میں ان کی آہستہ روی نے
خدا غارت کرے دست ستم کو
ابھی تو آنکھ کھولی تھی کلی نے
مہ و انجم کو ضو بخشی ہے ممتازؔ
ہمارے آنسوؤں کی روشنی نے
غزل
بہت دعوے کیے ہیں آگہی نے
ممتاز میرزا