بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں
میں خود پر بار ہوتی جا رہی ہوں
تمہیں اقرار کے رستے پہ لا کر
میں خود انکار ہوتی جا رہی ہوں
کہیں میں ہوں سراپا رہ گزر اور
کہیں دیوار ہوتی جا رہی ہوں
بہت مدت سے اپنی کھوج میں تھی
سو اب اظہار ہوتی جا رہی ہوں
بھنور دل کی تہوں میں بن رہے ہیں
میں بے پتوار ہوتی جا رہی ہوں
تمہاری گفتگو کے درمیاں اب
یونہی تکرار ہوتی جا رہی ہوں
یہ کوئی خواب کروٹ لے رہا ہے
کہ میں بے دار ہوتی جا رہی ہوں
کسی لہجے کی نرمی کھل رہی ہے
بہت سرشار ہوتی جا رہی ہوں
مرا تیشہ زمیں میں گڑ گیا ہے
جنوں کی ہار ہوتی جا رہی ہوں
غزل
بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں
عنبرین صلاح الدین