بہت عجیب ہے تعمیر کوئی گھر کرنا
رم غزال کو محدود بام و در کرنا
نمو کا زور تھا خوشبو فضا میں لہرائی
یہی تو ہے قفس رنگ میں بسر کرنا
قرار موت ہے منزل پذیر قدموں کی
مسافروں کو پھر آمادۂ سفر کرنا
زمانہ یاد سے تیری لپٹ کے روئے گا
مشاہدہ تو اے افتادۂ نظر کرنا
میں جس سے کٹ کے جدا ہو گیا تناور تھا
ہے اس کے نام رقم سایۂ شجر کرنا
بعید کیا ہے کہ جگنو سے چاند ڈھل جائے
ذرا سی آنچ کو اس طرح شعلہ ور کرنا
کبھی لطیف بدن پر شکن بھی پھبتی ہے
کبھی یہ پیرہن آلودہ لمس بھر کرنا
غزل
بہت عجیب ہے تعمیر کوئی گھر کرنا
سید رضا