بحث میں دونوں کو لطف آتا رہا
مجھ کو دل میں دل کو سمجھاتا رہا
ان کی محفل میں دل پر اضطراب
ایک شعلہ تھا جو تھراتا رہا
موت کے دھوکے میں ہم کیوں آ گئے
زندگی کا بھی مزا جاتا رہا
ناشگفتہ ہی رہی دل کی کلی
موسم گل بارہا آتا رہا
جب سے تم نے دشمنی کی اختیار
اعتبار دوستی جاتا رہا
اپنی ہی ضد کی دل بے تاب نے
ان کے در تک بھی میں سمجھاتا رہا
جور تو اے جوشؔ آخر جور ہے
لطف بھی ان کا ستم ڈھاتا رہا
غزل
بحث میں دونوں کو لطف آتا رہا
جوشؔ ملسیانی