بہے ساتھ اشک کے لخت جگر تک
نہ کی اس نے مری جانب نظر تک
عبث صیاد کو ہے بد گمانی
نہیں بازو میں اپنے ایک پر تک
خبر آئی مریض درد و غم کی
کہیں پہنچے خبر اس بے خبر تک
نزاکت سے لگی بل کرنے کیا کیا
ابھی گیسو نہ پہنچے تھے کمر تک
جئے جاتے ہیں شکل شمع سوزاں
نہ کچھ باقی رہیں گے ہم سحر تک
اگر میں یاد ہوتا تو نہ آتے
مگر بھولے سے آئے میرے گھر تک
دم گریہ تھی غالب ناتوانی
پہنچتے لخت دل کیا چشم تر تک
خدا جانے اثرؔ کو کیا ہوا ہے
رہا کرتا ہے چپ دو دو پہر تک
غزل
بہے ساتھ اشک کے لخت جگر تک
امداد امام اثرؔ