بہاروں کو چمن یاد آ گیا ہے
مجھے وہ گل بدن یاد آ گیا ہے
لچکتی شاخ نے جب سر اٹھایا
کسی کا بانکپن یاد آ گیا ہے
مری خاموشیوں پر ہنسنے والو
مجھے وہ کم سخن یاد آ گیا ہے
تمہیں مل کر تو اے یزداں پرستو
غرور اہرمن یاد آ گیا ہے
تری صورت کو جب دیکھا ہے میں نے
عروج فکر و فن یاد آ گیا ہے
کسی کا خوبصورت شعر سن کر
ترا لطف سخن یاد آ گیا ہے
ملے وہ اجنبی بن کر تو رفعتؔ
زمانے کا چلن یاد آ گیا ہے
غزل
بہاروں کو چمن یاد آ گیا ہے
رفعت سلطان