EN हिंदी
بہار فکر کے جلوے لٹا دیے ہم نے | شیح شیری
bahaar-e-fikr ke jalwe luTa diye humne

غزل

بہار فکر کے جلوے لٹا دیے ہم نے

اختر انصاری

;

بہار فکر کے جلوے لٹا دیے ہم نے
جنون عشق کے دریا بہا دیے ہم نے

فروغ دانش و برہاں کے شعلے بھڑکا کر
توہمات کے خرمن جلا دیے ہم نے

گرا کے درک و بصیرت کی بجلیاں پیہم
تعصبات کے ٹکڑے اڑا لیے ہم نے

بنا کے فکر و تدبر کو خادم انساں
مقدرات کے چھکے چھڑا دیے ہم نے

شعور نقد کی صحت پسندیوں کی قسم
عقیدتوں کے پرخچے اڑا دیے ہم نے

مٹا کے تفرقۂ خاص و عام کی لعنت
حقوق خاص ٹھکانے لگا دیے ہم نے

فتادگان زمیں کا بلند کر کے علم
فلک نشینوں کے پرچم جھکا دیے ہم نے

نئے شعور سے ذہنوں میں بجلیاں بھر دیں
نئی امنگوں سے دل جگمگا دیے ہم نے

گماں حیات پہ ہوتا ہے گیت کی لے کا
کچھ ایسے گیت جہاں کو سنا دیے ہم نے

طلسم توڑ کے جھوٹی حقیقتوں کے تمام
عجائبات کے جادو جگا دیے ہم نے

ورائے چرخ تھے آباد جس قدر فردوس
زمیں کی سطح پہ لا کر بسا دیے ہم نے

بنا کے محنت انساں کو ایک قدر بلند
زمیں پہ چاند ستارے بچھا دیے ہم نے

جلا کے عظمت آدم کی شمع دیرینہ
چراغ دیر و حرم کے بجھا دیے ہم نے

جو درک رکھتے ہیں اختر وہ سمجھیں اور بتائیں
یہ کس شراب کے ساغر لنڈھا دیے ہم نے