بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو
ہوا ہو ابر ہو ساقی ہو اور دریا ہو
روا ہے کہہ تو بھلا اے سپہر نا انصاف
ریائے زہد چھپے راز عشق رسوا ہو
بھرا ہے اس قدر اے ابر دل ہمارا بھی
کہ ایک لہر میں روئے زمین دریا ہو
جو مہرباں ہیں وہ سوداؔ کو مغتنم جانیں
سپاہی زادوں سے ملتا ہے دیکھیے کیا ہو
غزل
بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو
محمد رفیع سودا