EN हिंदी
بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا | شیح شیری
bahaar aai hai sote ko Tuk jaga dena

غزل

بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا

اشرف علی فغاں

;

بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا
جنوں ذرا مری زنجیر کو ہلا دینا

ترے لبوں سے اگر ہو سکے مسیحائی
تو ایک بات میں جیتا ہوں میں جلا دینا

اب آگے دیکھیو جیتوں نہ جیتوں یا قسمت
مری بساط میں دل ہے اسے لگا دینا

رہوں نہ گرمیٔ مجلس سے میں تری محروم
سپندوار مجھے بھی ذرا تو جا دینا

خدا کرے تری زلف سیہ کی عمر دراز
کبھی بلا مجھے لینا کبھی دعا دینا

برنگ غنچہ زر گل کے تئیں گرہ مت باندھ
فغاںؔ جو ہاتھ میں آوے اسے اڑا دینا