EN हिंदी
بہار آئے گی گلشن میں تو دار و گیر بھی ہوگی | شیح شیری
bahaar aaegi gulshan mein to dar-o-gir bhi hogi

غزل

بہار آئے گی گلشن میں تو دار و گیر بھی ہوگی

افسر ماہ پوری

;

بہار آئے گی گلشن میں تو دار و گیر بھی ہوگی
جہاں اہل جنوں ہوں گے وہاں زنجیر بھی ہوگی

اسی امید پر ہم گامزن ہیں راہ منزل میں
یہاں ظلمت سہی آگے کہیں تنویر بھی ہوگی

اگر رہنا ہے گلشن میں تو اپنے آشیانے کی
کبھی تخریب بھی ہوگی کبھی تعمیر بھی ہوگی

یہی تو سوچ کر ہم ان کی محفل سے چلے آئے
ہماری خامشی کی کچھ نہ کچھ تفسیر بھی ہوگی

یہ ہم بھی جانتے ہیں زندگی اک خواب ہے افسرؔ
مگر اس خواب کی آخر کوئی تعبیر بھی ہوگی