بگولے رہنما ہیں باد صحرائی سفر میں ہے
رکیں کیسے ہمارے ساتھ رسوائی سفر میں ہے
خبر بھی تو نہیں ہے اب کدھر کو جا رہے ہیں ہم
سرابوں کا سفر ہے آبلہ پائی سفر میں ہے
یہ بستی ہے کہ زنداں کچھ بھی تو پلے نہیں پڑتا
تھے کب پچھوا کے دن اور کب سے پروائی سفر میں ہے
کہاں سے آئیں کانوں کے لئے رم جھم سی آوازیں
جرس اک لفظ پارینہ ہے شہنائی سفر میں ہے
ازل سے تا ابد ہے کار فرما گردش دوراں
کہ نادانی حضر میں اور دانائی سفر میں ہے
اسے صدیاں لگیں گی نیند سے بے دار ہونے میں
ابھی آغاز کا موسم ہے انگڑائی سفر میں ہے
کوئی آہٹ بناتی ہی نہیں امید کا موسم
کچھ ایسی چپ لگی ہے جیسے گویائی سفر میں ہے
اکیلے پن کا عظمیؔ ہو بھی تو احساس کیسے ہو
تسلسل سے ہماری شام تنہائی سفر میں ہے

غزل
بگولے رہنما ہیں باد صحرائی سفر میں ہے
اسلام عظمی