EN हिंदी
بغیر یار گوارا نہیں کباب شراب | شیح شیری
baghair yar gawara nahin kabab sharab

غزل

بغیر یار گوارا نہیں کباب شراب

امداد علی بحر

;

بغیر یار گوارا نہیں کباب شراب
گزک ہے داغ مجھے اور خون ناب شراب

اگر ہے شوق طہارت شراب پی زاہد
ترے نجاست قلبی کو ہوگی آب شراب

دماغ اہل خرابات کے معطر ہیں
کباب نافۂ مشک ختن گلاب شراب

پیوں نجات سمجھ کے جو عشق ساقی ہے
درود پڑھ کے تپاؤں پئے ثواب شراب

بغیر سکر ہوا ہے یہ عالم سکرات
ہمارے منہ میں چواؤ بجاے آب شراب

چمن پہ جھوم رہا ہے سیاہ مستی میں
عجب بہار ہے برسائے جو سحاب شراب

شب وصال ہے انجم کھلائیں نقل مجھے
پلائے اپنے پیالے میں ماہتاب شراب

بہت مذمت مے خوار لکھ رہا ہے شیخ
خدا کرے کہ بنے جدول کتاب شراب

چلے بہار کے ایام ساقیٔ گل رو
مرا شباب ہے مہمان لا شتاب شراب

کوئی گزک گزک حسن سے نہیں اعلیٰ
شرابوں میں ہے مئے عشق انتخاب شراب

ہے نور نشا ضیا بخش دیدۂ عرفاں
در یگانۂ دل کی ہے آب و تاب شراب

خدا کے گھر میں وہ برّا رہا ہے اے رندو
جگاؤ شیخ کو چھڑکو بہ روئے خواب شراب

نہ دیکھے بغض سے مانند شپرک زاہد
ہے اپنے نور سے ہم جام آفتاب شراب

نشاط و عیش جہاں پر نہ بحرؔ لہرانا
کہ باغ سبز گلستان ہے سراب شراب