بغیر نقشے کے سارے مکان لگتے ہیں
یہ جتنے گھر ہیں قضا کی دکان لگتے ہیں
کبھی تو سچ کبھی بالکل گمان لگتے ہیں
نفیس لوگ ہیں جادو بیان لگتے ہیں
یہ ٹھیکیدار عمارت کے یہ زمیں والے
گرے جو گھر تو بہت بے زبان لگتے ہیں
میں ان میں آج بھی بچپن تلاش کرتا ہوں
میں خوش نہیں ہوں جو بچے جوان لگتے ہیں
وہ میرا بھائی نہیں پر وہ کوئی وار سہے
مری بھی پیٹھ پر نیلے نشان لگتے ہیں
قریب آئیں تو چھوٹا سا قد نکالتے ہیں
یہ لوگ دور سے کتنے مہان لگتے ہیں
غزل
بغیر نقشے کے سارے مکان لگتے ہیں
ف س اعجاز