بدرؔ یوں تو سبھی سے ملتا ہے
بے غرض کب کسی سے ملتا ہے
خود کو گم کر کے ڈھونڈیئے اس کو
یہ گہر بے خودی سے ملتا ہے
وہ کوئی ہو کہیں بھی ہو لیکن
ہو بہو آپ ہی سے ملتا ہے
جان بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے
یہ سبق زندگی سے ملتا ہے
چھاؤں میں زلف کے دھنک کے رنگ
سایہ یوں روشنی سے ملتا ہے
آستاں کھنچ کے خود چلا آئے
یہ شرف بندگی سے ملتا ہے

غزل
بدرؔ یوں تو سبھی سے ملتا ہے
صابر بدر جعفری