بدلی ہوئی ہے چرخ کی رفتار آج کل
ہو بند راست گوئی کا بازار آج کل
علم و ہنر ہے ملک کو درکار آج کل
ہم خود بھلے برے کے ہیں مختار آج کل
ہے اور ہی طریقۂ بازار آج کل
جنس نفیس کے ہیں خریدار آج کل
غفلت کا دور ملک سے شاید گزر گیا
مخلوق ہوتی جاتی ہے بیدار آج کل
گل گونۂ ترقیٔ تہذیب و علم سے
شکر خدا کہ سرخ ہیں رخسار آج کل
کیوں جانتے ہیں صنعت و حرفت کو باغ خلد
غیروں کی ہم نگاہ میں ہیں خار آج کل
روشن ہے اپنی بے ہنری آفتاب سے
ہے صبح کے قریب شب تار آج کل
بگڑی ہوئی ہے مے کدۂ دہر کی ہوا
ہو جائیں شیخ جی بھی نہ مے خوار آج کل
کیا کام ان سفید چڑیلوں کا ہند میں
کیوں ایسی شادیوں کی ہے بھر مار آج کل
ہر چیز کی گرانی نے ویران کر دیا
صرف خزاں ہے ہند کا گل زار آج کل
اس باغ میں ہے باد خزاں و باد قحط
ہر گل کے دل میں ہے خلش خار آج کل
بھولے ہیں اپنے فرض کو یہ خواجگان ہند
حق دینے میں بھی کرتے ہیں انکار آج کل
شکر خدا کہ ظلم سے معذور ہے فلک
برطانیہ ہے خلق کی غم خوار آج کل
یا رب ہمارے دل کو تو اپنی پناہ دے
دل دار ہو گئے ہیں دل آزار آج کل
مخصوص ہو چکی ہیں ارادی غلامیاں
ہے اک انار سیکڑوں بیمار آج کل
ایک ایک کر کے جتنے ہنر تھے وہ چھن گئے
ہم زندگی سے کیوں نہ ہوں بیزار آج کل
اک جرم اور فرد جرائم میں بڑھ گیا
یعنی نہ درد دل کا ہو اظہار آج کل
جینے کی فکر کیجئے اور پیٹ کا خیال
موقوف کیجے عشق کا آزار آج کل
پابندیاں بھی چاہئیں انسان کو ضرور
آزادیوں کی کیوں ہے یہ بھر مار آج کل
ملتا نہیں کہیں دہن یار ہے اناج
فاقوں سے جسم ہے کمر یار آج کل
ہے تنگ دستیوں کے سبب ضعف اس قدر
سب کی ہیں آنکھیں نرگس بیمار آج کل
لاکھوں محال عقلی و عادی سہی مگر
کسب معاش سب سے ہے دشوار آج کل
کیا کیجے تر نوالوں کا موسم نہیں رہا
چپکے ہوئے ہیں یار کے رخسار آج کل
فاقوں سے ہے یہ حال اگر تول کر بٹھائیں
آدھے ٹکٹ میں جائے تن زار آج کل
گل کر دیا چراغ معیشت تو اے ہوا
معدہ کے بھی نہ گھس گئے کیوں خار آج کل
چاروں طرف بلند ہے فریاد ہائے ہائے
ماتم کدہ ہے قہقۂ دیوار آج کل
دولت جب آئے گی کہ وہی چیز ہم بنائیں
جو چیز چاہتے ہوں خریدار آج کل
بہتر ہے کارخانوں سے ہو ملک کا بھلا
اگلیں گڑے خزانوں کو زردار آج کل
صنعت کا نام گنج ہے حرفت کا نام زر
علم شکم ہے ملک کو درکار آج کل
پرویںؔ کی یہ دعا ہے رہے امن ملک میں
رب غفور تو ہی ہے غم خوار آج کل
غزل
بدلی ہوئی ہے چرخ کی رفتار آج کل
پروین ام مشتاق