بدلہ یہ لیا حسرت اظہار سے ہم نے
آغاز کیا اپنے ہی انکار سے ہم نے
دروازہ نہیں اپنے سروکار میں شامل
ہے رابطہ رکھا ہوا دیوار سے ہم نے
امکان سا کھولا ہوا ساحل کی ہوا پر
امید سی باندھی ہوئی اس پار سے ہم نے
اپنی ہی بگاڑی ہوئی صورت کے علاوہ
کچھ اور نکالا نہیں طومار سے ہم نے
اس کا بھی کوئی فائدہ پہنچا نہ کسی کو
آساں جو بر آمد کیا دشوار سے ہم نے
منزل جو ہماری تھی کہیں رہ گئی پیچھے
یہ کام لیا تندئ رفتار سے ہم نے
یہ دھوپ ہی تھی اپنی گزر گاہ سو رکھا
اک فاصلہ بھی سایۂ اشجار سے ہم نے
جانچا ہے کسی اور طریقے سے یہ سب کچھ
پرکھا ہے کسی اپنے ہی معیار سے ہم نے
اس کی بھی ادا کی ہے ظفرؔ آج تو قیمت
جو چیز خریدی نہیں بازار سے ہم نے
غزل
بدلہ یہ لیا حسرت اظہار سے ہم نے
ظفر اقبال