بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو
بہار لائی ہے کیسی بہار دیکھو تو
یہ کیا ہوا کہ سلامت نہیں کوئی دامن
چمن میں پھول کھلے ہیں کہ خار دیکھو تو
لہو دلوں کا چراغوں میں کل بھی جلتا تھا
اور آج بھی ہے وہی کاروبار دیکھو تو
یہاں ہر اک رسن و دار ہی دکھاتا ہے
عجیب شہر عجیب شہریار دیکھو تو
نہ کوئی شانہ بچا ہے نہ کوئی آئینہ
دراز دستیٔ گیسوئے یار دیکھو تو
کسی سے پیار نہیں پھر بھی پیار ہے سب سے
وہ مست حسن ہے کیا ہوشیار دیکھو تو
وہ چپ بھی بیٹھے ہے تو ایسا بن کے بیٹھے ہے
ہر اک ادا یہ کہے ہے پکار دیکھو تو
ابھی تو خون کا سیندور ہی لگایا ہے
ابھی کرے ہے وہ کیا کیا سنگار دیکھو تو
ادا ہمیں نے سکھائی نظر ہمیں نے دی
ہمیں سے آنکھ چراؤ ہو یار دیکھو تو
اسیر کر کے ہمیں کیا پھرے ہے اتراتا
گلے میں ڈالے وہ پھولوں کا ہار دیکھو تو
غزل
بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو
کلیم عاجز