EN हिंदी
بڑی مشکل کہانی تھی مگر انجام سادہ ہے | شیح شیری
baDi mushkil kahani thi magar anjam sada hai

غزل

بڑی مشکل کہانی تھی مگر انجام سادہ ہے

ذوالفقار عادل

;

بڑی مشکل کہانی تھی مگر انجام سادہ ہے
کہ اب اس شخص کا ہم سے بچھڑنے کا ارادہ ہے

اور اس کے بعد اک ایسے ہی لمحے تک ہے خاموشی
ہمیں در پیش پھر سے لمحۂ تجدید وعدہ ہے

سنو رستے میں اک جلتا ہوا صحرا بھی آئے گا
کہو کب تک ہمارے ساتھ چلنے کا ارادہ ہے

ہمیں آسانیوں سے پیار تھا اور لوگ کہتے تھے
اگر منزل سے ہٹ جائیں تو ہر رستہ کشادہ ہے

ستارہ در ستارہ ٹوٹتا ہے آسماں تو بھی
ترے قصے میں بھی میری کہانی کا اعادہ ہے

میں ہوں نا معتبر منزل کی خاطر معتبر رہ پر
وجود خواہش جاں پر دعاؤں کا لبادہ ہے

کچھ ایسی شدتوں سے ہم گزر کر آئے ہیں عادلؔ
ہمیں تیری ضرورت بھی ضرورت سے زیادہ ہے