بڑی عبرت کی منزل ہے زمیں گور غریباں کی
یہاں اپنی حقیقت پر نظر پڑتی ہے انساں کی
یہی دھن تھی کہیں میرا دل گم گشتہ مل جائے
اسی وحشت میں برسوں خاک چھانی کوئے جاناں کی
جہاں نبضیں رکیں دل سرد ہو دو ہچکیاں آئیں
سمجھ لیجے کہ منزل آ گئی گور غریباں کی
نہ جائے گا میرے دل سے خیال ابروئے دلبر
کہ تیغوں ہی کے سائے میں تو ہے جنت مسلماں کی
فنائے عشق ہو کر زندۂ جاوید ہوتا ہے
مٹا کر دیکھیے ہستی نہیں مٹتی ہے انساں کی
یہاں رونے سے ہو مقصود حاصل غیر ممکن ہے
چلو اب شمعیں بھی بجھنے لگیں گور غریباں کی
سفیرؔ اک خواب تھی یہ چند روزہ زندگی اپنی
اجل سے مل گئی تعبیر اس خواب پریشاں کی

غزل
بڑی عبرت کی منزل ہے زمیں گور غریباں کی
محمد عباس سفیر