بڑی ہی اندھیری ڈگر ہے میاں
جہاں ہم فقیروں کا گھر ہے میاں
ہے فرصت تو کچھ دیر مل بیٹھیے
جدائی سے کس کو مفر ہے میاں
گھروندے یہاں ریت کے مت بناؤ
کہ سیل ہوا زور پر ہے میاں
کبھی بت شکن تھے پر اب خود شکن
یہ الزام بھی اپنے سر ہے میاں
تو پھر کج کلاہی پہ اصرار کیوں
اگر سنگ باری کا ڈر ہے میاں
کوئی بچ نکلنے کی صورت نہیں
یہ آسیب ہر موڑ پر ہے میاں
تو پھر رخ بدلنے سے کیا فائدہ
مقدر جب اندھا سفر ہے میاں
غزل
بڑی ہی اندھیری ڈگر ہے میاں
سلیم شیرازی