بڑی حیرت ہے وہ زندہ ملا ہے
جسے ہر موڑ پر دھوکا ملا ہے
تلاش حق میں میں نکلا ہوں جب بھی
نئی منزل نیا رستا ملا ہے
ملا بھی کیا کسی کو تم سے مل کر
بکھر جانے کا اندیشہ ملا ہے
نہیں پیاسے کو قطرہ بھی میسر
جو ہے سیراب اسے دریا ملا ہے
مرے گھر ڈھونڈنے والوں کو اکثر
فقط اک ٹوٹا آئینہ ملا ہے

غزل
بڑی حیرت ہے وہ زندہ ملا ہے
نور العین قیصر قاسمی