EN हिंदी
بڑی حیرت ہے وہ زندہ ملا ہے | شیح شیری
baDi hairat hai wo zinda mila hai

غزل

بڑی حیرت ہے وہ زندہ ملا ہے

نور العین قیصر قاسمی

;

بڑی حیرت ہے وہ زندہ ملا ہے
جسے ہر موڑ پر دھوکا ملا ہے

تلاش حق میں میں نکلا ہوں جب بھی
نئی منزل نیا رستا ملا ہے

ملا بھی کیا کسی کو تم سے مل کر
بکھر جانے کا اندیشہ ملا ہے

نہیں پیاسے کو قطرہ بھی میسر
جو ہے سیراب اسے دریا ملا ہے

مرے گھر ڈھونڈنے والوں کو اکثر
فقط اک ٹوٹا آئینہ ملا ہے