بڑی دانائی سے انداز عیاری بدلتے ہیں
بدلتے موسموں میں جو وفاداری بدلتے ہیں
گرانی ہو کہ ارزانی انہیں تو مل ہی جاتے ہیں
ضرورت جب بھی ہوتی ہے وہ درباری بدلتے ہیں
ضرورت ایسے اہل دل کی ہے اب میرے لوگوں کو
جو ترتیب رموز زندگی ساری بدلتے ہیں
تعلق کیا فقیران حرم کا شہریاروں سے
ہم ایسے لوگ کب اپنی وفاداری بدلتے ہیں
اسیر مصلحت خود ہو گئے وہ جو یہ کہتے تھے
پرانی مصلحت ہیں صورتیں ساری بدلتے ہیں
چلو اک بار پھر دار و رسن کی آزمائش ہو
چلو اک بار پھر رسم ستم گاری بدلتے ہیں
غزل
بڑی دانائی سے انداز عیاری بدلتے ہیں
سلطان رشک