بڑھتی جاتی ہے خیالوں کی تھکن آخر شب
ٹوٹنے لگتے ہیں یادوں کے بدن آخر شب
ساری دنیا ہے سیاہی کے سمندر کی طرح
چھین لی وقت نے ایک ایک کرن آخر شب
روشنی بن کے دبے پاؤں چلا آتا ہے
ان دریچوں سے ترا سانولا پن آخر شب
تھک کے بیٹھی ہے کہیں دور مسافر کی طرح
میرے خوابوں سے مری صبح چمن آخر شب
ہر بن مو سے چھلکنے لگی یادوں کی شراب
اور گلنار ہوا تیرا بدن آخر شب
ایک اک خواب یہیں دفن ہوا ہے ثاقبؔ
دیکھنا سوگ میں ہے ارض دکن آخر شب

غزل
بڑھتی جاتی ہے خیالوں کی تھکن آخر شب
میر نقی علی خاں ثاقب