EN हिंदी
بڑھتی جاتی ہے خیالوں کی تھکن آخر شب | شیح شیری
baDhti jati hai KHayalon ki thakan aaKHir-e-shab

غزل

بڑھتی جاتی ہے خیالوں کی تھکن آخر شب

میر نقی علی خاں ثاقب

;

بڑھتی جاتی ہے خیالوں کی تھکن آخر شب
ٹوٹنے لگتے ہیں یادوں کے بدن آخر شب

ساری دنیا ہے سیاہی کے سمندر کی طرح
چھین لی وقت نے ایک ایک کرن آخر شب

روشنی بن کے دبے پاؤں چلا آتا ہے
ان دریچوں سے ترا سانولا پن آخر شب

تھک کے بیٹھی ہے کہیں دور مسافر کی طرح
میرے خوابوں سے مری صبح چمن آخر شب

ہر بن مو سے چھلکنے لگی یادوں کی شراب
اور گلنار ہوا تیرا بدن آخر شب

ایک اک خواب یہیں دفن ہوا ہے ثاقبؔ
دیکھنا سوگ میں ہے ارض دکن آخر شب