بڑھے کچھ اور کسی التجا سے کم نہ ہوئے
مرے حریف تمہاری دعا سے کم نہ ہوئے
سیاہ رات میں دل کے مہیب سناٹے
خروش نغمۂ شعلہ نوا سے کم نہ ہوئے
وطن کو چھوڑ کے ہجرت بھی کس کو راس آئی
مسائل ان کے وہاں بھی ذرا سے کم نہ ہوئے
فراز خلق سے اپنا لہو بھی برسایا
غبار پھر بھی دلوں کی فضا سے کم نہ ہوئے
بلند اور لویں ہو گئیں امیدوں کی
دیے وفا کے تمہاری جفا سے کم نہ ہوئے
بھنور میں ڈوب کے تاریخ بن گئے گویا
سفینے عشق کے سیل بلا سے کم نہ ہوئے
ہمارے ذہن بھٹکتے رہے خلاؤں میں
سفر نصیب کے زنجیر پا سے کم نہ ہوئے
سدا بہار خیابان آرزو تھا ظفرؔ
لہو کے پھول ہماری قبا سے کم نہ ہوئے
غزل
بڑھے کچھ اور کسی التجا سے کم نہ ہوئے
ظفر مرادآبادی