بڑھا جو درد جگر غم سے دوستی کر لی
لہو جو آنکھ سے ٹپکا تو شاعری کر لی
کسی چراغ سے شکوہ نہیں کیا میں نے
جلایا خون جگر اور روشنی کر لی
میں ناز کیوں نہ کروں اپنے ٹوٹے خوابوں پر
کہ خودکشی بھی انھوں نے خوشی خوشی کر لی
وہ اک خطا ہمیں برباد کر دیا جس نے
مزہ یہ دیکھو کہ پھر سے خطا وہی کر لی
نہ تم ملے نہ تمہاری کوئی خبر آئی
تمہارے شہر میں دن گزرا رات بھی کر لی
ہے پیار سے ہی ضیاؔ زندگانی میں رونق
تو یہ نہ کہیے کہ برباد زندگی کر لی
غزل
بڑھا جو درد جگر غم سے دوستی کر لی
سبھاش پاٹھک ضیا