EN हिंदी
بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی | شیح شیری
baDha hai soz-e-jigar ab madad ko aae koi

غزل

بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی

جاوید لکھنوی

;

بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی
غضب کی آگ لگی ہے ذرا بجھائے کوئی

پڑی ہے دل کو مرے خود بھی عادت فریاد
یہ چھیڑتا ہے ہر اک کو کہ پھر ستائے کوئی

سنائے جاتے ہیں ہم قصۂ غم فرقت
خدا کرے کہ نہ محفل میں مسکرائے کوئی

تڑپ وہ ہجر کی تھی اب یہ موت کی ہے تڑپ
جو دیکھنا ہو تو اب آ کے دیکھ جائے کوئی

جنہیں یہ دیکھ کے تاب آتی ہے وہ اور ہیں لوگ
ہم اپنے منہ کو پھراتے ہیں مسکرائے کوئی