بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی
غضب کی آگ لگی ہے ذرا بجھائے کوئی
پڑی ہے دل کو مرے خود بھی عادت فریاد
یہ چھیڑتا ہے ہر اک کو کہ پھر ستائے کوئی
سنائے جاتے ہیں ہم قصۂ غم فرقت
خدا کرے کہ نہ محفل میں مسکرائے کوئی
تڑپ وہ ہجر کی تھی اب یہ موت کی ہے تڑپ
جو دیکھنا ہو تو اب آ کے دیکھ جائے کوئی
جنہیں یہ دیکھ کے تاب آتی ہے وہ اور ہیں لوگ
ہم اپنے منہ کو پھراتے ہیں مسکرائے کوئی
غزل
بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی
جاوید لکھنوی